Arina saif

Add To collaction

آہستہ آہستہ

کھلے گی اس نظر پہ چشم تر آہستہ آہستہ
کیا جاتا ہے پانی میں سفر آہستہ آہستہ

کوئی زنجیر پھر واپس وہیں پر لے کے آتی ہے
کٹھن ہو راہ تو چھٹتا ہے گھر آہستہ آہستہ

بدل دینا ہے رستہ یا کہیں پر بیٹھ جانا ہے
کہ تھکتا جا رہا ہے ہم سفر آہستہ آہستہ

خلش کے ساتھ اس دل سے نہ میری جاں نکل جائے
کھنچے تیر شناسائی مگر آہستہ آہستہ

ہوا سے سرکشی میں پھول کا اپنا زیاں دیکھا
سو جھکتا جا رہا ہے اب یہ سر آہستہ آہستہ


پروین شاکر

   5
1 Comments

Angela

08-Oct-2021 08:02 PM

👌

Reply